کراچی میں فائر سیفٹی کا بحران، 80 فیصد عمارتیں غیر محفوظ قرار

62 / 100 SEO Score

کراچی: شہر قائد میں فائر سیفٹی کا بحران سنگین شکل اختیار کر گیا ہے، جہاں 80 فیصد عمارتوں میں آگ سے بچاؤ کا کوئی نظام موجود نہیں جبکہ 90 فیصد عمارتوں میں ایمرجنسی راستے تک دستیاب نہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ صورتحال لاکھوں شہریوں کو روزانہ موت کے خطرے سے دوچار کر رہی ہے۔

آئی ایم ایف اور پاکستان کے مذاکرات میں اہم پیش رفت، اسٹاف لیول معاہدہ قریب

یہ انکشاف فائر پروٹیکشن ایسوسی ایشن آف پاکستان کے زیر اہتمام تیسری نیشنل فائر سیفٹی کانفرنس اور رسک بیسڈ ایوارڈز کی تقریب میں کیا گیا۔ ماہرین نے خبردار کیا کہ بدعنوانی، غفلت اور قوانین پر عمل نہ ہونے کے باعث کراچی کسی بھی وقت بڑے سانحے سے دوچار ہوسکتا ہے۔

آباد کے چیئرمین حسن بخشی نے کہا کہ جن عمارتوں کی تعمیر کے دوران فائر سیفٹی کوڈز پر عمل نہیں کیا گیا، انہیں این او سی جاری کرنا شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

ریسکیو 1122 کے سی ای او ڈاکٹر عابد جلال کے مطابق نومبر 2024 سے اب تک کراچی میں 1700 سے زائد آگ لگنے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جن کی بنیادی وجوہات شارٹ سرکٹ اور ناقص وائرنگ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک "فائر پریوینشن” کو اولین ترجیح نہیں دی جائے گی، یہ واقعات بڑھتے رہیں گے۔

ریسکیو 1122 کی رپورٹ کے مطابق سندھ بھر میں اب تک 2700 سے زائد آگ لگنے کے واقعات، 1041 ٹریفک حادثات، 10 لاکھ سے زیادہ میڈیکل ایمرجنسیز اور 448 ڈوبنے کے کیس رپورٹ ہوچکے ہیں۔

فائر پروٹیکشن ایسوسی ایشن کے صدر کنور وسیم نے بتایا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) پہلے ہی 500 سے زائد عمارتوں کو غیر محفوظ قرار دے چکی ہے۔ ان کے مطابق 80 فیصد آگ کے واقعات کی وجہ ناقص وائرنگ ہے جبکہ گیس سلنڈر دھماکے بھی بڑھ رہے ہیں۔

کراچی کے چیف فائر آفیسر محمد ہمایوں کے مطابق شہر میں صرف 28 فائر اسٹیشنز موجود ہیں جبکہ ضرورت کم از کم 200 کی ہے۔ اب تک 34 فائر فائٹرز اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ریسپانس ٹائم ڈیڑھ منٹ تک کم ہے مگر ٹریفک جام، بند راستے اور اداروں کی عدم ہم آہنگی تاخیر کا باعث بنتے ہیں۔

ہلال احمر سندھ کے چیئرمین ریحان ہاشمی نے کہا کہ شہر کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، ناقص منصوبہ بندی اور اداروں کی غیر مربوط حکمت عملی آگ کے پھیلاؤ کو بڑھا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی کو مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور بلدیاتی اداروں کو فوری طور پر بااختیار بنایا جانا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے