اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) — پاکستان میں بجلی کے صارفین کو تقریباً 21 کروڑ 50 لاکھ روپے کا اضافی مالی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے، جس کی بڑی وجہ ریگولیٹری نظام کی کمزوریاں اور معاہدوں پر عمل درآمد میں ناکامی قرار دی جا رہی ہے۔
ہمایوں سعید کی نوجوانی کی دلچسپ یادیں، محبت میں ٹرین تک جا پہنچے
توانائی ماہرین کے مطابق بجلی مہنگی ہونے کی وجوہات میں اکثر کیپیسٹی ٹریپ، روپے کی قدر میں کمی اور زرمبادلہ کے مسائل کا ذکر کیا جاتا ہے، لیکن کمزور ریگولیٹری نگرانی اور معاہداتی خلاف ورزیاں وہ عوامل ہیں جن پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ نتیجتاً، نقصان کا بوجھ براہِ راست عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔
کوئلہ سپلائی میں خلاف ورزی
حالیہ معاملہ پنجاب کے ایک کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کا ہے، جہاں طویل المدتی سپلائر نے معاہدہ توڑتے ہوئے سپلائی روک دی۔ کمپنی نے "فورس میجر” کا جواز پیش کیا، لیکن اسی دوران وہ دیگر شعبوں کو کوئلہ فراہم کرتی رہی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل وجہ کم رعایتی قیمت تھی۔
اس خلاف ورزی کے نتیجے میں بجلی گھر کو دوسرے سپلائر سے 1.86 ڈالر فی ٹن مہنگا کوئلہ خریدنا پڑا۔ مجموعی طور پر تقریباً 3.72 لاکھ ٹن کوئلہ مہنگے داموں خریدا گیا، جس سے 19.7 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔
نقصان کا بوجھ عوام پر
نیپرا نے 26 جون 2025 کے اپنے فیصلے میں یہ نقصان صارفین پر ڈالنے کی اجازت دے دی۔ حالانکہ معاہدے کے مطابق کمپنی کی کارکردگی ضمانت ضبط ہونا تھی اور اضافی اخراجات اسی سے وصول کیے جانے تھے، لیکن نہ ضمانت ضبط ہوئی اور نہ ہی ریکوری کی گئی۔
مزید حیرت انگیز امر یہ ہے کہ خلاف ورزی کے باوجود اسی کمپنی کو بعد ازاں نئے ٹینڈرز میں حصہ لینے اور جیتنے کی اجازت دی گئی۔ ایک ٹینڈر میں اس نے پہلے سے بھی کم رعایت دی، جس کے باعث صارفین پر مزید 1.6 کروڑ روپے کا بوجھ بڑھ گیا۔
ریگولیٹری ناکامیاں
توانائی ماہرین کا کہنا ہے کہ سی پی پی اے-جی کی جانب سے ڈیفالٹ کرنے والی کمپنی کو این او سی جاری کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سزا اور احتساب کا مؤثر نظام موجود نہیں۔
نیپرا کی تحقیقاتی رپورٹ میں بھی اعتراف کیا گیا تھا کہ کوئلہ خریداری کے عمل میں بے ضابطگیاں ہیں، محدود مقابلے کی وجہ سے اکثر ایک ہی بولی دہندہ کو ٹھیکے مل جاتے ہیں اور ریگولیٹری رہنما اصولوں کی عدم موجودگی صارفین پر اضافی بوجھ ڈال رہی ہے۔
کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ آزاد کوئلہ ریگولیٹر قائم کیا جائے، لیکن آٹھ ماہ گزرنے کے باوجود یہ تجاویز عملی شکل اختیار نہ کر سکیں۔