اسلام آباد — وفاقی حکومت نے ریکوڈک سونے اور تانبے کے منصوبے کے پہلے مرحلے کے لیے 7 ارب 72 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کے ترمیم شدہ مالیاتی پیکج کی منظوری دے دی، جس کے بعد اگلے دو ہفتوں میں حتمی معاہدے پر دستخط متوقع ہیں۔ یہ اقدام ملکی تاریخ کے سب سے بڑے معدنیاتی منصوبے کی عملی تکمیل کی طرف ایک اہم سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے۔
مومنہ اقبال: آج کے مرد ناراض عورتوں جیسے رویے اپناتے ہیں
تفصیلات کے مطابق جمعرات کو وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیرِ صدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں بلوچستان حکومت، ریاستی اداروں اور قرض دہندگان کے درمیان معاہدوں کی توثیق کی گئی۔
پہلے مرحلے کی لاگت مارچ میں تخمینہ شدہ 6 ارب 76 کروڑ 50 لاکھ ڈالر سے بڑھ کر 7 ارب 72 کروڑ 30 لاکھ ڈالر ہو گئی ہے، جس کی بڑی وجہ قرضوں میں اضافہ اور اضافی اخراجات کو شامل کرنا ہے۔ اس وقت منصوبے کے قرضے کی مالیت 3 ارب 50 کروڑ ڈالر ہے جبکہ شیئر ہولڈرز کی مجموعی سرمایہ کاری 3 ارب 44 کروڑ ڈالر رہ جانے کا امکان ہے۔
ای سی سی نے او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کو ہدایت دی کہ ابتدائی غیر ملکی زرِ مبادلہ کی ضرورت اپنے ذخائر سے پوری کریں، جبکہ کسی بھی کمی کو اسٹیٹ بینک پورا کرے گا۔
شیڈول کے مطابق ریکوڈک منصوبے سے 2028 کے آخر تک پہلی کانسنٹریٹ حاصل ہو گی۔ 37 سالہ کان کی عمر کے دوران 90 ارب ڈالر کی آپریٹنگ کیش فلو اور 70 ارب ڈالر کا فری کیش فلو متوقع ہے، جس میں سے تقریباً 53 ارب ڈالر پاکستان کو حاصل ہوں گے۔
وزارتِ ریلوے نے بھی منصوبے کے تحت 1350 کلومیٹر ریلوے لنک کے لیے 39 کروڑ ڈالر کی فنانسنگ اسکیم کی منظوری دی، تاکہ بلوچستان سے کانسنٹریٹ پورٹ قاسم تک پہنچایا جا سکے۔ اس معاہدے کو فارن انویسٹمنٹ پروموشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ 2022 کے تحت "اہلیت یافتہ سرمایہ کاری” کا درجہ دیا گیا ہے۔
منصوبہ تعمیر کے عروج پر 7 ہزار 500 افراد کو روزگار فراہم کرے گا جبکہ آپریشنل مرحلے میں 3 ہزار 500 افراد کام کریں گے۔ مقامی سطح پر تعلیم، صاف پانی، صحت اور ہنر مند تربیتی پروگرام بھی اس منصوبے کا حصہ ہیں۔