پاکستان میں گاڑیوں کے لیے نئے عالمی معیار اور حفاظتی ضوابط نافذ، درآمدی و مقامی دونوں گاڑیاں متاثر

68 / 100 SEO Score

اسلام آباد (اسٹاف رپورٹر) — وزارتِ صنعت و پیداوار نے پہلی بار پاکستان میں درآمد شدہ اور مقامی طور پر تیار کردہ گاڑیوں کے لیے عالمی معیار اور حفاظتی ضوابط نافذ کر دیے ہیں۔ یہ فیصلہ آٹو انڈسٹری کے اسٹیک ہولڈرز کی تشویشات کے بعد سامنے آیا اور اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کی سفارش پر وفاقی کابینہ نے اس کی منظوری دی۔

فیروز خان کی متنازع انسٹاگرام اسٹوری، دوسری اہلیہ پر الزامات کے بعد دعویٰ: “اکاؤنٹ ہیک ہوگیا تھا”

انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق تمام نئی اور استعمال شدہ درآمدی گاڑیوں کو اقوام متحدہ کے ورلڈ فورم برائے وہیکل ریگولیشن (WP-29) کے معیارات پر پورا اترنا ہوگا، جن میں روڈ سیفٹی، مسافروں کا تحفظ، کاربن کے اخراج کی حد، ماحولیاتی تقاضے، بریکنگ سسٹم، ایئر بیگز، سیفٹی بیلٹس، کریش پروٹیکشن، چائلڈ ریسٹرینٹس اور ٹائر سیفٹی سمیت دیگر اصول شامل ہیں۔

درآمدی گاڑیوں کے لیے نئی شرائط

اب صرف وہی کمپنیاں استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرسکیں گی جو کمپنیز ایکٹ 2017 کے تحت رجسٹرڈ ہوں اور مناسب سرمایہ و آفٹر سیلز نیٹ ورک رکھتی ہوں۔ مزید یہ کہ ہر گاڑی کے لیے پری شپمنٹ انسپیکشن سرٹیفکیٹ لازمی ہوگا، جو منظور شدہ بین الاقوامی ایجنسیوں (جیسے جاپان کی JAAI یا کوریا کی KTL) سے حاصل کیا جائے گا۔ پاکستان آمد کے بعد بھی ان گاڑیوں کی پوسٹ شپمنٹ انسپیکشن نامزد مراکز پر ہوگی۔

مقامی گاڑیاں بھی انہی ضوابط کی پابند

پاکستان میں اسمبل اور تیار کی جانے والی گاڑیوں پر بھی انہی WP-29 معیارات کا اطلاق ہوگا، جن میں بریکنگ، اسٹیئرنگ، ڈھانچہ جاتی مضبوطی، شور اور کاربن اخراج شامل ہیں۔ یہ شرائط ایندھن والے انجن اور برقی دونوں قسم کی گاڑیوں کے لیے یکساں ہیں۔ کمپنیوں کو 30 جون 2026 تک ان معیارات پر مکمل عمل درآمد کرنا ہوگا، بصورت دیگر ای ڈی بی مینوفیکچرنگ سرٹیفکیٹس اور درآمدی اجازت نامے منسوخ کرسکے گی۔

اسٹیک ہولڈرز کے تحفظات

پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹیو پارٹس اینڈ ایکسیسریز مینوفیکچررز (PAAPAM) کے سینئر رکن عامر اللہ والا نے ای ڈی بی کی صلاحیت پر سوال اٹھایا کہ آیا وہ ان نئے معیارات کو نافذ اور ریگولیٹ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر مقامی اسمبلرز پہلے ہی جاپانی، کوریائی یا چینی اصولوں پر عمل کر رہے ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حکومت مقامی ٹیسٹنگ لیبارٹریاں قائم نہ کر سکی تو پرزہ جات کو بیرونِ ملک ٹیسٹ کرانے سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا اور قیمتی زرمبادلہ کا اخراج ہوگا۔ ساتھ ہی انہوں نے مقامی لیبارٹریوں کی ساکھ پر بھی سوال اٹھایا۔

دائرہ اختیار کا تنازع

یہ اقدام ایک نئے تنازع کو بھی جنم دے رہا ہے کیونکہ آٹوموٹیو سیفٹی اور کوالٹی کے ضوابط کی ذمہ داری پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA) سے لے کر ای ڈی بی کو سونپ دی گئی ہے۔ پی ایس کیو سی اے وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے تحت ملک کی واحد قانونی اتھارٹی ہے جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے اور انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار اسٹینڈرڈائزیشن (ISO) میں پاکستان کی نمائندگی کرتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کے ٹیکنیکل بیریئرز ٹو ٹریڈ (TBT) معاہدے کے تحت دہری یا متوازی اتھارٹیز قائم کرنا شفافیت اور یکسانیت کے اصولوں کے خلاف ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے