پنجاب کے دریا ستلج، راوی اور چناب میں تباہ کن سیلاب نے لاکھوں افراد کو گھروں سے محروم کر دیا ہے جبکہ صوبے کا بڑا حصہ زیرِ آب آ گیا ہے۔ سیلاب نے بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا اور لاکھوں ایکڑ زرعی زمین تباہ کر دی۔
سیلاب سے نمٹنے کے لیے قلیل، درمیانے اور طویل المدتی پالیسی ناگزیر ہے، وزیراعظم شہباز شریف
شدید بارشوں اور بھارت کی جانب سے ڈیموں سے پانی چھوڑے جانے کے باعث تینوں سرحدی دریا غیر معمولی حد تک بھر گئے ہیں، جن کا ریلا سرحد پار پاکستان میں داخل ہو کر وسطی پنجاب کے اضلاع کو متاثر کر رہا ہے، اور اب جنوبی پنجاب کے لیے بھی خطرہ بن چکا ہے۔
حکام کے مطابق صرف گوجرانوالہ ڈویژن میں 15 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں سیالکوٹ کے 5، گجرات کے 4، نارووال کے 3، حافظ آباد کے 2 اور گوجرانوالہ کا ایک شہری شامل ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد اور 35 ہزار مویشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے، جبکہ مجموعی طور پر متاثرین کی تعداد 6 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔
پی ڈی ایم اے نے وارننگ دی ہے کہ قادرآباد ہیڈ ورکس پر پانی کا دباؤ خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے، اور اگر یہ ڈھانچہ ٹوٹا تو حافظ آباد اور چنیوٹ شدید متاثر ہوں گے۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ بڑے ڈھانچے محفوظ ہیں اور متاثرہ اضلاع میں بڑے پیمانے پر انخلا جاری ہے۔
سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں سیالکوٹ، نارووال، گجرات، منڈی بہاالدین، چنیوٹ، جھنگ، قصور، اوکاڑہ، پاکپتن، وہاڑی، بہاولنگر اور بہاولپور شامل ہیں۔ درجنوں دیہات مکمل طور پر زیرِ آب آ گئے ہیں، جبکہ نارووال میں گردوارہ کرتارپور صاحب کا کچھ حصہ بھی کئی فٹ پانی میں ڈوب گیا جس سے سکھ یاتری اور عملہ متاثر ہوا، تاہم ریسکیو آپریشن کے ذریعے 150 سے زائد افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیرِ صدارت اجلاس میں بتایا گیا کہ صوبے کے 769 دیہات کے 6 لاکھ سے زائد شہری متاثر ہوئے ہیں۔ اس وقت 263 امدادی اور 161 میڈیکل کیمپ قائم کر دیے گئے ہیں، جہاں خوراک، علاج اور عارضی پناہ گاہیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ پاکستان آرمی، ریسکیو 1122، پی ڈی ایم اے اور دیگر ادارے مشترکہ طور پر امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
حکام نے خبردار کیا ہے کہ بڑے پیمانے پر انخلا کے باوجود خطرہ ابھی ٹلا نہیں، کیونکہ آنے والے دنوں میں جنوبی پنجاب میں چار دریاؤں کا پانی ملنے سے سیلابی صورت حال مزید سنگین ہو سکتی ہے۔