وفاقی حکومت نے نئے گیس کنکشنز پر عائد پابندی ختم کرنے کی تیاری کر لی ہے اور تجویز دی گئی ہے کہ یہ کنکشنز درآمدی ری-گیسیفائیڈ لیکویفائیڈ نیچرل گیس (آر ایل این جی) کی قیمت پر دیے جائیں، جو فی الحال 3 ہزار 900 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو بنتی ہے۔ اس اقدام سے نئے صارفین کو موجودہ شرح سے تقریباً چار گنا زیادہ ادائیگی کرنا ہوگی۔
سرفراز احمد کا قومی ٹیم پر اعتماد، کامران اکمل نے سلیکشن پر سوالات اٹھا دیے
ذرائع کے مطابق پیٹرولیم ڈویژن نے وفاقی کابینہ کو سمری ارسال کر دی ہے، جس میں پہلے سال ایک لاکھ 20 ہزار نئے کنکشنز فراہم کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ ترجیح ان درخواست گزاروں کو دی جائے گی جنہیں پہلے ڈیمانڈ نوٹس جاری کیے گئے تھے یا جنہوں نے ایمرجنسی فیس ادا کی تھی لیکن پابندی کے باعث کنکشن حاصل نہ کر سکے۔ اس زمرے میں تقریباً ڈھائی لاکھ درخواست گزار شامل ہیں، جنہیں حلف نامہ دینا ہوگا کہ وہ فیس میں اضافے یا پرانے دعووں کے خلاف عدالت نہیں جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق نئی کنکشن فیس 40 سے 50 ہزار روپے رکھی جائے گی جبکہ صارفین کو نوٹیفائیڈ آر ایل این جی نرخ پر بل جاری ہوں گے۔ اس وقت جنرل سیلز ٹیکس سمیت آر ایل این جی کی آخری قیمت 3 ہزار 900 تا 4 ہزار روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہے، جو اب بھی ایل پی جی کے مقابلے میں 35 سے 40 فیصد سستی پڑتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام نیٹ ورک میں موجود فاضل ایل این جی کو کھپانے کے لیے کیا جا رہا ہے، بصورت دیگر یہ نظام اور ریاستی معاہدوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ تاہم اس پالیسی سے سردیوں میں گیس کی قلت، گردشی قرضے اور مقامی ذخائر کی بندش جیسے مسائل مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
اس وقت دونوں گیس کمپنیوں کے پاس 35 لاکھ سے زائد درخواستیں زیرِ التوا ہیں جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں خدمات فراہم کرنے والی ایس این جی پی ایل پہلے ہی سردیوں میں شدید بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ مزید یہ کہ مقامی ذخائر کو جبری طور پر بند کر کے درآمدی ایل این جی کے لیے جگہ بنائی جا رہی ہے، جس سے ملکی پروڈیوسرز اور مستقبل کی تلاش و ترقی متاثر ہو رہی ہے۔
دوسری جانب قطر سے طے شدہ طویل المدتی معاہدوں کے تحت فاضل کارگوز کی صورت میں پاکستان کو شیڈول ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑ رہا ہے، جس سے مالیاتی دباؤ مزید بڑھنے کا امکان ہے۔